ویڈیو: سماج وادی پارٹی کے صدر اور اتر پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو ہر روز کسی نہ کسی بات پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ اس میں اپوزیشن کا انڈیا اتحاد بھی شامل ہے۔ سینئر صحافی شرت پردھان بتا رہے ہیں کہ انہیں اس بات کی تشویش ہے کہ جو ان کی صحیح جگہ ہے یا ریاست کے اسمبلی انتخاب میں پارٹی کو جو سیٹیں ملنی چاہیے، وہ اپوزیشن اتحاد میں شامل ہونے کے بعد نہیں مل رہی ہیں۔
ویڈیو: مدھیہ پردیش کے سینئر صحافی دیپک تیواری نے ریاست کی سیاست اور وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کی پوری سیاسی زندگی پر دی وائر کے اجے کمار کے ساتھ تبادلہ خیال کیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ مودی گروپ نے کس طرح شیوراج سنگھ چوہان کو الگ تھلگ کرنے کا کام کیا ہے؟
لداخ آٹونومس ہل ڈیولپمنٹ کونسل (کارگل) کے انتخابات میں نیشنل کانفرنس کے سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھرنے کے بعد پارٹی کے نائب صدر عمر عبداللہ نے جموں و کشمیر اسمبلی انتخابات میں تاخیر کے لیے مرکزی حکومت کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا۔ عبداللہ نے کمیشن سے الیکشن نہ کرانے کی وجوہات بتانے کو کہا۔
پانچ ریاستوں میں ہونے والے انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نے بتایا کہ ووٹنگ 7 نومبر سے شروع ہوگی۔ چھتیس گڑھ میں انتخابات دو مرحلوں میں 7 اور 17 نومبر کو ہوں گے، جبکہ میزورم میں 7 نومبر، مدھیہ پردیش میں 17 نومبر، راجستھان میں 23 نومبر اور تلنگانہ میں 30 نومبر کو انتخابات ہوں گے۔
لداخ آٹونومس ہل ڈیولپمنٹ کونسل (کارگل) کے انتخابات میں نیشنل کانفرنس اور کانگریس نے 26 میں سے 22 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ انتخابی نتائج کو بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت کے 5 اگست 2019 کو جموں و کشمیر کے بارے میں کیے گئے فیصلوں اور اس کے نتیجے میں خطے میں نافذ کی گئی پالیسیوں کے ردعمل کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔
ویڈیو: مدھیہ پردیش میں بی جے پی گزشتہ 20 سالوں سے حکومت کر رہی ہے۔ لیکن 2023 کے اواخر میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کی دوڑ میں بی جے پی کا اقتدار تک پہنچنے کا دعویٰ پیچھے ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
اتر پردیش میں مئو کی گھوسی سیٹ پر ہوئے ضمنی انتخاب میں ایس پی امیدوار سدھاکر سنگھ کی جیت میں مقامی ایکویشن کے ساتھ ساتھ بی جے پی امیدوار دارا سنگھ چوہان کی پارٹی بدلنے،باہری ہونے اور غیر فعال عوامی نمائندے کی امیج نے بڑا کردار ادا کیا، پھر بھی لوک سبھا انتخابات سے قبل یہ الیکشن اپوزیشن کے انڈیا الائنس بنام بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے کے لیے ایک امتحان ہی تھااور اس میں’انڈیا’ کو کامیابی ملی۔
ویڈیو: سینئر صحافی ارملیش کا خیال ہے کہ کرناٹک اسمبلی انتخابات قومی سیاست میں ایک نیا موڑ ضرور ہے ، لیکن عام انتخابات الگ طرح سے ہوتے ہیں، جہاں اتر پردیش جیسی کچھ ریاستیں اہم رول میں ہوتی ہیں۔ اس بارے میں ان کا نظریہ۔
مغرب کے لیے یہ انتخابات ایک اہم سبق ہیں۔ نہ صرف ان کی بے جا مداخلت نے ترکیہ میں قوم پرست جذبات کو ابھارابلکہ بیرون ملک ترکوں کے ووٹنگ کے انداز سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بیلجیم، فرانس، جرمنی، ڈنمارک اور ہالینڈ یعنی جو ممالک اسلامو فوبیا کا شکار ہیں، میں اردوان کو بھاری اکثریت حاصل ہوئی۔ اس کے برعکس برطانیہ، امریکہ، نیوزی لینڈ جیسے ممالک میں جہاں اسلاموفوبیا کے کم واقعات رونما ہوتے ہیں، کلیچ داراولو کو اکثریت ملی۔
مدھیہ پردیش میں سال کے آخر میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں۔ کرناٹک کے انتخابی نتائج کے بعد کہا جا رہا ہے کہ بی جے پی قیادت اور ریاست کی شیوراج سنگھ چوہان حکومت کو اقتدار کے کھونے کا ڈر ستا رہا ہے۔ تاہم، مدھیہ پردیش اور کرناٹک کی نسلی، سماجی اور سیاسی صورتحال ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے۔
رائے عامہ اور تجزیہ کاروں کی یہ پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی کہ انتخابات دوسرے راؤنڈ میں چلے جائیں گے۔ مگر اکثر کا خیال تھا کہ کلیچ داراولو کو سبقت حاصل ہوگی، کیونکہ گرتی ہوئی معیشت اور اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے سے عوام خاصے نالاں تھے۔اردو ان اور ان کے قریبی حریف کے درمیان تقریباً 25 لاکھ ووٹوں کا فرق ہے۔ اس کو پاٹنا اپوزیشن امیدوار کے لیے اب نہایت ہی مشکل امر ہے۔
ویڈیو: کرناٹک میں بی جے پی کے خلاف کانگریس کی جیت کے موضوع پر دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر لکشمن یادو کے ساتھ یاقوت علی کی بات چیت۔
ویڈیو: کرناٹک انتخابات میں بی جے پی کے خلاف کانگریس کو ملی جیت پر سینئر صحافی صبا نقوی، سیاسی تجزیہ کار منیشا پریم اور لندن یونیورسٹی کے پروفیسر سُبیرسنہا سے دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی کی بات چیت۔
ویڈیو: کرناٹک انتخابات میں بی جے پی کے خلاف کانگریس کو ملی جیت پرسینئر صحافی صبا نقوی سے دی وائر کی سینئر ایڈیٹرعارفہ خانم شیروانی کی بات چیت۔
کرناٹک میں کانگریس کی جیت نے 2015 کے دلی اور 2020 کے مغربی بنگال اسمبلی انتخابات کی یاد تازہ کر دی ہے، جہاں کسی ایک پارٹی نے مودی-شاہ کے طنطنے اور رتبے کوانتخابی میدان میں شکست دی تھی۔ اس کے باوجود، ایسا نہیں ہے کہ اس جیت کے ساتھ ہندوستان کی جمہوریت میں اچانک سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہو۔
اسمبلی انتخابات سے تین ماہ قبل کرناٹک کی پچھلی بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے شیڈولڈ کاسٹس کے لیے ریزرویشن کو 15 فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد اورشیڈولڈ ٹرائبس کے لیے3 فیصد سے بڑھا کر 7 فیصد کردیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ایس سی میں انٹرنل ریزرویشن کا بھی اعلان کیا تھا۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے جس طرح کرناٹک اسمبلی انتخابات کو اپنی شخصیت سے جوڑ کر پوری مہم میں اپنے عہدے کے وقارتک سےسمجھوتہ کیا اوررائے دہندگان نے جس طرح ان کی باتوں کو نظر انداز کیا، اس سے یہ پیغام واضح ہے کہ بی جے پی کے ‘مودی نام کیولم’ والے سنہرے دن بیت گئے ہیں۔
ویڈیو: کرناٹک اسمبلی میں کانگریس کی جیت کے بعد دہلی واقع پارٹی ہیڈکوارٹر میں جشن کا ماحول نظر آیا۔ دی وائر کی ٹیم نے یہاں موجود پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں سے اس سلسلے میں بات چیت کی۔
کرناٹک اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی کامیابی پر میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی لیڈر راہل گاندھی نے کہا کہ ہم نے نفرت سےاور غلط لفظوں سے یہ لڑائی نہیں لڑی۔ ہم نے محبت سے، پیار سے، دل کھول کر یہ لڑائی لڑی اور کرناٹک کے لوگوں نے ہمیں دکھایا کہ اس ملک کو محبت اچھی لگتی ہے۔
کرناٹک اسمبلی کی 224 سیٹوں پر 10 مئی کوپولنگ ہوئی تھی، جس میں73.19 فیصد ووٹنگ درج کی گئی تھی۔مقابلہ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی اور کانگریس کے درمیان ہے، جبکہ جنتا دل (سیکولر) ہنگ اسمبلی کی امیدیں لگائے بیٹھا ہے۔
ویڈیو: شمالی کرناٹک کو بی جے پی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور یہاں اس کی گرفت بہت مضبوط بتائی جاتی ہے۔ وہاں اس اسمبلی انتخابات میں کیاامکانات ہیں،اس کے بارے میں بتا رہے ہیں دی وائر کے پولیٹکل ایڈیٹر اجئے آشیرواد۔
بی جے پی کی اینٹی کرپشن والی امیج دھیرے دھیرے ٹوٹ رہی ہے اور 2024 تک حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ دوسر لفظوں میں کہیں تو، اگر کانگریس کرناٹک میں اچھی جیت درج کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، تو 2024 کے انتخابی موسم کی شروعات سے پہلےکرناٹک قومی اپوزیشن کے لیےامکانات کی راہیں کھول سکتا ہے۔
ویڈیو: کرناٹک کے اولڈ میسور علاقے میں کانگریس اور بی جے پی دونوں ہی اپنی جگہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہیں، جے ڈی (ایس) پھر سے ہینگ مینڈیٹ کی صورت میں ‘کنگ میکر’ کا رول ادا کرنے کے لیے اس خطے میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنا چاہے گی۔
ویڈیو: کتور کرناٹک حلقے کو پہلے ممبئی-کرناٹک حلقے کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یہ حلقہ کرناٹک اسمبلی میں 50 ایم ایل اےبھیجتا ہے۔ 2018 کے اسمبلی انتخابات میں حلقے کی کل 50 سیٹوں میں سے بی جے پی نے 30 اور کانگریس نے 17 پر کامیابی حاصل کی تھی، جبکہ جے ڈی (ایس) کو صرف 2 سیٹوں پر ہی کامیابی ملی تھی۔
اگرچہ کانگریس زیادہ تر پری پول سروے میں آگے ہے، لیکن اگر ہم ماضی کی انتخابی کارکردگی کا جائزہ لیں تو وہ ووٹ شیئر کے لحاظ سے پیچھے ہے۔ اس کے ساتھ ہی کانگریس لیڈروں کو یہ خوف بھی ہے کہ اگر پارٹی بڑے فرق سے نہیں جیتی تو اس کے لیے بی جے پی کے منی پاور کے سامنے کھڑا ہونا آسان نہیں ہوگا۔
ویڈیو: کرناٹک اسمبلی انتخابات کے لیے بی جے پی کی انتخابی مہم کے مرکز میں وزیر اعظم نریندر مودی ہی ہیں۔ اس بارے میں دی وائر کے بانی مدیر ایم کے وینو سے دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی کی بات چیت۔
کرناٹک اسمبلی انتخابات کے لیے اپنے منشور میں کانگریس نے بجرنگ دل پر پابندی لگانے کا وعدہ کیا ہے۔ اس پر تنقید کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ پارٹی نے پہلے بھگوان رام کو تالے میں بند کیا تھا اور اب یہ جئے بجرنگ بلی کا نعرہ لگانے والوں کو بند کرنا چاہتی ہے۔
رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق اردوان اور کلیچی داراولو کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہے۔ مگر ابھی تک ہوئے دس جائزوں میں دونوں میں کوئی بھی آئین کی طرف سے مقرر 50فیصد جمع ووٹ حاصل کرنے میں ناکام ہو رہا ہے ۔ دونوں کلیدی امیدواروں کے ووٹوں کا تناسب 42 اور 43 فیصد کے آس پاس ہی گھوم رہا ہے۔
ابھی تک رائے عامہ کے جوابتدائی جائزے شائع ہوئے ہیں، ان کے مطابق حکمراں اتحاد اور اپوزیشن کے درمیان کانٹے کامقابلہ ہونے کی پیشن گوئی کی گئی ہے۔
ہماچل پردیش اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر کے آبائی ضلع ہمیر پور کی پانچ میں سے ایک بھی اسمبلی سیٹ پر جیت نہیں ملی۔ ٹھاکر کے پارلیامانی حلقے کی کل 17 اسمبلی سیٹوں میں سے کانگریس نے 10 پر کامیابی حاصل کی ہے، دو پر آزاد امیدواروں نے کامیابی حاصل کی۔
اپوزیشن کی طرف سے اٹھائے گئےاقتصادی اور سماجی سروکاروں نے بی جے پی کو اس کے ‘گجراتی گورو’ پر بھروسہ کرنے کے لیے مجبور کر دیا ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ عام آدمی پارٹی نے بی جے پی کی انتخابی مہم کا رخ ہندوتوا سے ترقیاتی اسکیموں کی جانب موڑ دیا ہے۔
بی جے پی کو یوپی میں اکثریت تو ضرور مل گئی، لیکن اس کی اتحادی پارٹیوں کے ووٹ فیصد کو شامل کرنے کے بعد بھی وہ صرف 45 فیصد کے قریب ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہ کس طرح الیکشن میں فرقہ پرستی پر زور دیا گیا،یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ باقی 55 فیصد ووٹ بی جے پی مخالف تھے۔
بی جے پی نے ان انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے اپنے تین ترپ کے پتوں یعنی گائے، مسلمان اور پاکستان میں سے مسلمان کا جم کر استعمال کیا۔
اتر پردیش میں سماج وادی پارٹی سیٹوں کے لحاظ سے بھلے ہی پیچھے رہ گئی ہو، لیکن ووٹ فیصد کے معاملے میں اس نےبڑی لمبی چھلانگ لگائی ہے۔ اپنی انتخابی تاریخ میں پہلی بار اس کو 30 فیصد سے زیادہ ووٹ ملے ہیں۔
اسد الدین اویسی کی قیادت والی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے زیادہ تر امیدوار 5000 ووٹوں کا ہندسہ بھی پار نہیں کر سکے۔ اس مینڈیٹ کو قبول کرتے ہوئے اویسی نے کہا کہ پارٹیاں ای وی ایم کو قصوروار ٹھہرا رہی ہیں۔ خرابی ای وی ایم میں نہیں، عوام کے ذہنوں میں جو چپ لگائی گئی ہے وہ بڑا رول ادا کر رہی ہے۔
مظفرنگر فسادات کے ملزم رہے سنگیت سوم، وزیر سریش رانا، امیش ملک اور سابق ایم پی حکم سنگھ کی بیٹی مرگانکا سنگھ اپنی سیٹ نہیں بچا سکے۔ انتخابی مہم کے دوران مسلم مخالف بیان بازی کرنے والے ڈومریا گنج کے ایم ایل اے اور ہندو یوا واہنی کے ریاستی انچارج راگھویندر سنگھ بھی ہار گئے۔ اس کے ساتھ ہی یوگی حکومت کے نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ سمیت 11 وزیروں کو عوام نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
یوپی میں 403 سیٹوں پر اتری ی بی ایس پی کے کھاتے میں محض ایک سیٹ آئی ہے اور اسے کسی بھی اسمبلی میں سب سے کم 12.88 فیصد ووٹ ملے ہیں۔ 1989 میں پارٹی کے قیام کے بعد سے اب تک کایہ بدترین مظاہرہ ہے۔ اس سے پہلے 1993 میں اسے کل 425 سیٹوں پر 11.1 فیصد ووٹ ملے تھے۔ اگرچہ اس نے 164 سیٹوں پر الیکشن لڑا تھا اور 67 سیٹ جیتنے میں کامیاب ہوئی تھی ،اس لحاظ سے اسے 28.7 فیصد ووٹ ملے تھے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ سیاسی طور پر انتہائی اہم مانے جانے والےاتر پردیش میں، جہاں سب سے زیادہ 403 اسمبلی سیٹیں ہیں، وہاں 621186 ووٹرز (0.7 فیصد) نے ای وی ایم میں ‘نوٹا’ کا بٹن دبایا۔ شیوسینا کو گوا، اتر پردیش اور منی پور کے اسمبلی انتخابات میں نوٹا سے بھی کم ووٹ ملے۔
پانچ میں سے چار ریاستوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی جیت کو یقینی بنانے کے بعد بی جے پی ہیڈ کوارٹر پہنچے وزیر اعظم نریندر مودی نے پارٹی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اتر پردیش نے ملک کو کئی وزرائے اعظم دیے ہیں، لیکن پانچ سال کی مدت کار مکمل کرنے والے کسی وزیر اعلیٰ کےدوبارہ منتخب ہونے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔
عام آدمی پارٹی پنجاب کی 117 اسمبلی سیٹوں میں سے 92 سیٹیں جیت کر سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری۔ ان میں سے 18 سیٹوں پر کانگریس نے کامیابی حاصل کی ہے۔ اکالی دل کو 3 جبکہ بی جے پی کو 2 سیٹیں ملی ہیں۔ وزیر اعلیٰ چرن جیت سنگھ چنی کو دونوں سیٹوں پر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔