غیر منقسم جموں و کشمیر میں ایک دہائی قبل ہوئے اسمبلی انتخابات میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرنے والی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی موجودہ انتخابات میں دوہرے ہندسے کو بھی چھونے میں کامیاب نہیں ہوپائی۔
جموں و کشمیر میں انتخابات کے دوران دائیں بازو کی تنظیم ایکم سناتن بھارت دل کے قومی صدر انکور شرما بی جے پی میں شامل ہو گئے ہیں۔ شرما نے مسلم گجروں اور بکروال برادریوں کی مخالفت کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ ‘لینڈ جہاد’ میں مصروف ہیں۔ وہ 2018 کے کٹھوعہ ریپ کیس کے ایک ملزم کے وکیل بھی رہ چکے ہیں۔
ایک دہائی بعد جموں و کشمیر میں ہونے والے اسمبلی انتخابات سے پہلے جیل سے لوک سبھا کا انتخاب جیتنے والے انجینئر رشید کی ضمانت پراندازہ لگایا جا رہا ہے کہ رشید کی عوامی اتحاد پارٹی بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت کی پراکسی ہے۔
نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ اور دیگر کے خلاف ای ڈی کا معاملہ بی سی سی آئی گرانٹ کے 43.69 کروڑ روپے کے مبینہ غلط استعمال کے لیے سی بی آئی کی جانب سے چارج شیٹ داخل کرنے کے بعد درج کیا گیا تھا۔ عبداللہ 2001 سے 2011 تک جموں و کشمیر کرکٹ ایسوسی ایشن کے صدر تھے۔
کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ انضمام ایک سماجی اور ثقافتی عمل ہے، جس کو روزانہ کی بنیاد پر انجام دیے بغیر کام نہیں چلے گا۔
رائٹ ونگ کشمیر کو مسلمان حملہ آوروں کی سرزمین قرار دے کر ہندوستان سے اس کی بیگانگی کو اور بڑھا رہے ہیں۔ پچھلے پانچ سالوں میں ہندوستان کے ساتھ کشمیر کی خلیج بڑھ گئی ہے۔
اگست 2019 میں دعوے کیے جا رہے تھے کہ بہت جلد کشمیری پنڈت کشمیر واپس آجائیں گے، باقی ہندوستانی بھی پہلگام اور سون مرگ میں زمین خرید سکیں گے۔ لیکن حالات اس قدر بگڑے کہ وادی میں باقی رہ گئے پنڈت بھی اپنا گھر بار چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں۔
’وقت کے ساتھ میں نے اپنی شناخت کو چھپانا شروع کر دیا ہے۔ جب کوئی مجھ سے پوچھتا ہے کہ آپ کہاں سے ہیں، تو میں کہتی ہوں – یہیں دلی سے۔‘
کشمیر اس وقت دو طرح کے جذبات سے بر سرپیکار ہے؛ شدید غصہ اور احساس ذلت، اور گہری مایوسی کی یہ کیفیت غیرتغیرپسند ہے۔ نہ تو پاکستان آزادی دلا سکتا ہے اور نہ ہی مرکز کی کوئی آئندہ حکومت 5 اگست سے پہلے کے حالات کو بحال کر پائے گی۔
کشمیر پر ہونے والے بحث و مباحثہ سے کشمیری غائب ہیں۔ ان کے بغیر ان کی سرزمین کی قسمت کا فیصلہ ہو رہا ہے۔ اس ستم ظریفی کے ساتھ آپ جہلم کے پانیوں میں غوطہ زن ہو سکتے ہیں – یہ ندی دونوں طبقے کی نال سے لپٹی ہوئی یادوں اور مضطرب ڈور سے بندھے درد کے ہمراہ رواں ہے۔
پانچ اگست 2019 کے بعد کا کشمیرہندوستان کے لیے آئینہ ہے۔ اس کے بعد ہندوستان کا کشمیرائزیشن تیز رفتاری سے ہوا ہے۔ شہریوں کے حقوق کی پامالی، گورنروں کی ہنگامہ آرائی ، وفاقی حکومت کی من مانی۔
ٹھیک پانچ سال پہلے 5 اگست 2019 کو مرکز کی بی جے پی حکومت نے جموں و کشمیر کو آزاد ہندوستان میں شامل کرنے کی شرط کے طور پر آرٹیکل 370 کے تحت دی گئی خصوصی حیثیت کو منسوخ کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ ریاست کو مرکز کے زیر انتظام علاقوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تبدیل کر دیا تھا۔
ہندوستان کی مقتدر شخصیات نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ پانچ سال قبل لیے گئے اس فیصلہ نے جموں و کشمیر کو ایک غیر یقینی صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔ اس میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ عسکریت پسندوں کے بڑھتی ہوئی کارروائیوں کی وجہ سے حکومت قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کو مؤخر کر سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسا قدم انتہائی غیر معمولی ہوگا، کیونکہ ماضی میں اس سے بھی خراب حالات میں انتخابات کا انعقاد کیا جا چکا ہے۔
جموں و کشمیر پولیس نے جموں کے ایک کاروباری اور دو اخبارات کے مالک ترون بہل کو آفیشل سیکرٹس ایکٹ کے تحت گرفتار کیا ہے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے صوبے میں کچھ فراد کی سیکورٹی واپس لینے سے متعلق ‘خفیہ’ دستاویز کو عام کیا تھا۔
اپنی یاد داشت لکھنے کے بجائے بساریہ نے، جو 2017 سے 2020 تک ہائی کمشنر کے عہدہ پر رہے، پاکستان میں 1947 سے لےکر موجودہ دور تک ہندوستان کے سبھی 25 سفیروں کے تجربات کا خلاصہ بیان کیا ہے۔ چند تضادات اور کچھ غلط تشریحات کو چھوڑ کر یہ کتاب، ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات و حالات پر نظر رکھنے والوں اور تجزیہ کاروں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔
جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت اور آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد پہلی بار صوبے میں ہونے والی ووٹنگ اور اور دہلی لوک سبھا انتخابات میں ‘انڈیا’ اتحاد کی پوزیشن کے موضوع پر کشمیر کے صحافی آکاش حسن اور دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن کے ساتھ تبادلہ خیال کر رہی ہیں میناکشی تیواری۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کشمیر کی تین لوک سبھا سیٹوں، سری نگر، بارہمولہ اور اننت ناگ-راجوری میں سے کسی پر بھی انتخاب نہیں لڑ رہی ہے۔ وہیں ‘انڈیا’ اتحاد کی دو اہم جماعتوں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے درمیان سیٹوں کی تقسیم پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو پایا۔ دونوں جماعتیں آمنے سامنے ہیں۔ جموں و کشمیر سے دی وائر کی گراؤنڈ رپورٹ۔
ویڈیو: جموں و کشمیر کے حالات، رام مندر، فرقہ پرستی، مودی حکومت کے کام کاج سمیت مختلف مسائل پر جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کے ساتھ سابق مرکزی وزیر اور سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل کی بات چیت۔
جموں و کشمیر کے پونچھ ضلع میں 21 دسمبر کو دہشت گردانہ حملے میں 4 جوانوں کی موت کے بعد فوج نے کچھ لوگوں کو پوچھ گچھ کے لیے اٹھایا تھا۔ بعد میں ان میں سے تین افراد کی لاشیں اس جگہ کے قریب ملیں جہاں دہشت گردوں نے فوج پر حملہ کیا تھا۔ پانچ دیگر کو زخمی حالت میں اسپتال میں داخل کرایا گیا، جن میں ایک نابالغ بھی شامل ہے۔
ہندوستان میں مرکزی حکومتوں نے مختلف وجوہات کی بنا پر 115 بار آئین کی دفعہ 356 کا استعمال کرتے ہوئے صوبائی حکومتوں کو معزول کیا ہے۔ اب مرکزی حکومت کو ایک اور ہتھیار مل گیا ہے۔ اپوزیشن کے زیر اقتدار کسی بھی صوبائی حکومت کو نہ صرف اب معزول کیا جا سکے گا، بلکہ اس ریاست کو پارلیامنٹ کی عددی قوت کے بل پر براہ راست مرکزی علاقے میں تبدیل کیا جاسکے گا اور صوبائی اسمبلی کے مشورہ کے بغیر ہی دولخت بھی کیا جا سکے گا۔
اپوزیشن کا کہنا ہے کہ وہ اس بات سے مایوس ہے کہ سپریم کورٹ نے جموں و کشمیر ریاست کو تقسیم کرنے اور اس کی حیثیت کو کم کرکے دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں کرنے کے سوال پر فیصلہ نہیں دیا۔ جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کو ہٹانے کے فیصلے کو برقرار رکھنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر کانگریس نے کہا کہ وہ ‘احترام کے ساتھ اس فیصلے سےمتفق نہیں’ ہے۔
سی جے آئی ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی بنچ نے کہا کہ آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے اور جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرنے کا آئینی فیصلہ پوری طرح سے جائز ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے ریاست میں 30 ستمبر 2024 سے پہلے اسمبلی انتخابات کرانے کی ہدایت بھی دی۔
کشمیر میں صحافیوں اور رپورٹنگ کی صورتحال پر بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ میں وادی کےبعض صحافیوں اور مدیران سے بات چیت کی ہے، جنہوں نے بتایا ہے کہ وہ واقعات کی رپورٹنگ کے حوالے سےحکام کی طرف سے پیدا کیے گئے ‘خوف اور دھمکی’ کے ماحول کی وجہ سے ‘گھٹن’محسوس کر تے رہے ہیں۔
اس وقت تمام نگاہیں ہندوستانی سپریم کورٹ کی طرف ٹکی ہوئی ہیں۔ کیا سپریم کورٹ واقعی کوئی تاریخ رقم کرے گا؟ ایک بڑا سوال ہے، جس کا جواب وقت ہی دے گا۔
پی ڈی پی کی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کا یہ ردعمل جموں و کشمیر بینک کی جانب سے اپنے چیف منیجر سجاد احمد بزاز کو مبینہ طور پر ‘ریاست کی سلامتی کے لیے خطرہ’ ہونے کے الزام میں برخاست کرنے کے ایک دن بعد آیا ہے۔
جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کے خلاف سپریم کورٹ میں جاری سماعت میں عرضی گزاروں کے وکیل کپل سبل نے مرکز پر صوبے کے لوگوں کی خواہش کو سمجھنے کی کوشش کیے بغیر ہی ‘یکطرفہ’ فیصلہ لینے کا الزام لگایا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ جب آپ جموں و کشمیر سے اس طرح کے خصوصی تعلقات کو توڑنا چاہتے ہیں تو لوگوں کی رائے لینی ہوگی۔
فورم فار ہیومن رائٹس ان جموں وکشمیر سے وابستہ اس غیر رسمی گروپ نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ حکومتی دعووں کے برعکس کشمیر کے زمینی حقائق کچھ اور ہی کہانی بیان کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت کا امن و امان و سلامتی کا دعویٰ صحیح ہے، تو یہ خطہ پچھلے پانچ سالوں سے منتخب اسمبلی کے بغیر کیوں ہے؟
کشمیر کے معاملے پر چاہے سپریم کورٹ ہو یا قومی انسانی حقوق کمیشن، ہندوستان کے کسی بھی مؤقر ادارے کا ریکارڈ کچھ زیادہ اچھا نہیں رہا ہے، مگر چونکہ اس مقدمہ کے ہندوستان کے عمومی وفاقی ڈھانچہ پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے، اس لیے شاید سپریم کورٹ کو اس کو صرف کشمیر کی عینک سے دیکھنے کے بجائے وفاقی ڈھانچہ اور دیگر ریاستوں پر اس کے اثرات کو بھی دیکھنا پڑے گا۔ امید ہے کہ وہ ایک معروضی نتیجے پر پہنچ کر کشمیری عوام کی کچھ داد رسی کا انتظام کر پائےگی۔
جموں خطہ کے کشتواڑ ضلع میں دو مدارس کو مقامی انتظامیہ نے ایف سی آر اے کے اصولوں کی خلاف ورزی کرنے والے ٹرسٹ کے ساتھ الحاق کی وجہ سے بند کرنے کے احکامات جاری کیے تھے، حالانکہ جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے اس پر روک لگا دی تھی۔ اس کے باوجود مدارس کو سیل کر دیا گیا۔
منی پور کے سابق گورنر گربچن جگت نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ریاست بھر میں پولیس اسٹیشنوں اور پولیس کے اسلحہ خانوں پر حملے کیے گئے ہیں اور ہزاروں بندوقیں اور بڑی مقدار میں گولہ بارود لوٹ لیا گیا ہے۔ جموں کشمیر، پنجاب، دہلی، گجرات کے بدترین دور میں بھی ایسا نہیں ہوا تھا۔
محبوبہ مفتی لکھتی ہیں، جموں و کشمیر کے لوگوں نے جمہوریت اور سیکولرازم کی مشترکہ اقدار پرجس ملک میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا، اس نے ہمیں مایوس کر دیا ہے۔ اب صرف عدلیہ ہی ہمارے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا ازالہ کرسکتی ہے۔
اگست 2019 میں جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کی بیشتر دفعات کو منسوخ کرنے اور صوبے کو دو یونین ٹریٹری میں تقسیم کرنے کے مودی حکومت کےفیصلے کے خلاف بیس سے زیادہ عرضیاں عدالت میں زیر التوا ہیں۔ سی جے آئی ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی پانچ ججوں کی بنچ اگلے ہفتے ان کی سماعت کرے گی۔
منی پور میں پچھلے کچھ دنوں سے تشدد جاری ہے، جبکہ جموں و کشمیر میں دہشت گردانہ حملے میں پانچ جوان شہید ہوگئے ہیں، لیکن وزیر اعظم نریندر مودی کرناٹک میں انتخابی مہم میں مصروف ہیں۔ انہوں نے ان دونوں واقعات پر اب تک نہ تو کوئی بیان دیا ہے اور نہ ہی اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس کےبارے میں کسی طرح کی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ویڈیو: جموں و کشمیر کے گورنر کے طور پر اپنے دور میں ستیہ پال ملک نے الزام لگایا تھا کہ ان سے کہا گیا تھا کہ اگر وہ امبانی اور آر ایس ایس سے وابستہ ایک شخص کی دو فائلوں کو منظوری دے دیں تو انہیں 300 کروڑ روپے رشوت کے طور پر ملیں گے، لیکن انہوں نے سودوں کو رد کر دیا تھا۔ سی بی آئی نے اس معاملے میں پوچھ گچھ کے لیے انہیں سمن جاری کیا ہے۔
ویڈیو: جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک کو سی بی آئی کی طرف سے پوچھ گچھ کے لیے نوٹس بھیجے جانے کے بعد ہریانہ، دہلی، راجستھان، پنجاب اور اتر پردیش کے سینکڑوں لوگ گزشتہ سنیچر کو ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے دہلی میں ان کے گھر کے باہر جمع ہوگئے تھے۔ دی وائر کی ٹیم نے اس معاملے پر ان لوگوں سے بات چیت کی۔
جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی کو اس ہفتے کے شروع میں عدالتی مداخلت کے بعد ‘مشروط’ پاسپورٹ جاری کیا گیا تھا۔ ہائی کورٹ میں دائر ایک درخواست کے جواب میں سری نگر کے ریجنل پاسپورٹ آفیسر نے کہا ہے کہ جموں و کشمیر پولیس سی آئی ڈی انہیں پاسپورٹ جاری کرنے کے حق میں نہیں ہے۔
محبوبہ مفتی قومی دارالحکومت میں اپنے حامیوں کے ساتھ جموں و کشمیر انتظامیہ کی طرف سے چلائی جا رہی انسداد تجاوزات مہم کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے پارلیامنٹ ہاؤس جا رہی تھیں، جب دہلی پولیس نے انہیں حراست میں لے لیا۔
جموں و کشمیر میں ‘غیر قانونی طور پر قبضہ کی گئی’ سرکاری زمین کو خالی کرانے کے لیے انتظامیہ کی انسداد تجاوزات مہم کے حوالے سے پی ڈی پی کی سربراہ محبوبہ مفتی نے مرکز پر الزام لگایا ہے کہ وہ شہریوں کو ہراساں کر رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی جموں کے مضافات میں ہزاروں شہریوں نے اس مہم کے خلاف سڑکوں پر نکل کر مظاہرہ کیا۔
اگست 2019 میں جے این یو اسٹوڈنٹ یونین کی سابق رہنما شہلا رشید نے سلسلہ وار کئی ٹوئٹ کرکےہندوستانی فوج پر جموں و کشمیر میں لوگوں کو اٹھانے، چھاپے ماری کرنے اور لوگوں پرتشدد کرنے کے الزام لگائے تھے۔ اب اس کے لیے دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر نے ان کے خلاف سی آر پی سی کی دفعہ 196 کے تحت مقدمہ چلانے کی منظوری دی ہے۔
بارہ ابواب پر مشتمل 400صفحات کی اس کتاب میں کشمیر کے سبھی ایشوز خاص طور پر پچھلے تین سال کے دوران پیش آئے واقعات اور ان کے اثرات کا جامع جائزہ لیا گیا ہے۔ انورادھا نے اس کتاب میں ہندوستان کے سیکولر اور لبرل طبقہ کو مخاطب کرکے خبردار کیا ہے کہ موجودہ بی جے پی حکومت کشمیر کو ایک لیبارٹری کی طرح استعمال کر رہی ہے اور اگر اس کو روکا نہ گیاتو یہ تجربات قریہ قریہ، گلی گلی ہندوستان کے دیگر علاقوں میں دہرائے جائیں گے۔