شہریت قانون کو واپس لینے کی مانگ والی تجویز کو منظور کرنے والا کیرل ملک کا پہلا ریاست بن گیا ہے۔کیرل اسمبلی کے ذریعےاٹھایا گیا قدم اس لئے اہم ہے کیونکہ بی جے پی کی معاون جےڈی یو کی قیادت والے بہاراور اڑیسہ سمیت کم سے کم سات ریاستوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ قانون کو نافذ نہیں کریںگے۔
نئی دہلی: شہریت قانون (سی اے اے)کےخلاف ملک گیر مظاہرہ کے درمیان کیرل اسمبلی نے اس متنازعہ قانون کو واپس لینے کی مانگ کرتے ہوئے منگل کو ایک تجویز منظور کی۔ سی اے اے کے خلاف کسی ریاستی حکومت کےذریعے اٹھایا گیا یہ پہلا ایسا قدم ہے۔
کیرل اسمبلی کے ایک دن کے اسپیشل سیشن میں حکمراں سی پی آئی (ایم)کی قیادت والی ایل ڈی ایف اور اپوزیشن کانگریس کی قیادت والی یو ڈی ایف نے تجویز کی حمایت کی،جبکہ بی جے پی کے واحد ایم ایل اے او راج گوپال نے عدم اتفاق کا اظہارکیا۔ ایوان نے وزیراعلیٰ پنرائے وجین کے ذریعے پیش کی گئی تجویز کو منظور کیا۔ وجین نے کہا کہ آئین مخالف قانون کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔
اس سے پہلے سی پی آئی (ایم) اور کانگریس نے ریاست میں سی اے اے کےخلاف آواز اٹھانے کے لئے منچ شیئر کیا تھا۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، وجین نے کہا کہ نیا قانون مسلم کمیونٹی کے خلاف ایک بڑے ایجنڈے کا حصہ تھا۔ چینتھلا نے کہا کہ ریاست کو قانون کےخلاف متحد ہونا چاہیے۔
اس تجویز کے خلاف واحد مخالف آواز کیرل اسمبلی میں بی جےپی کے اکلوتے ایم ایل اے او راج گوپال نے اٹھائی اور تجویز کو غیر آئینی کہا۔
کیرل اسمبلی کے ذریعے اٹھایا گیا یہ قدم اس لئے اہم ہےکیونکہ بی جے ڈی مقتدرہ اڑیسہ اور بی جے پی کی معاون جے ڈی یو کی قیادت والے بہارسمیت کم سے کم سات ریاستوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ قانون کو نافذ نہیں کریںگے۔
کیرل کے ذریعے تجویز منظور ہونے کے کچھ گھنٹے بعد مرکزی وزیر روی شنکر پرساد نے نامہ نگاروں سے کہا کہ وجین کو بہتر قانونی صلاح لینی چاہیے۔ یہ صرف پارلیامنٹ ہے جس کو شہریت سےمتعلق کسی بھی قانون کو منظورکرنے کا حق ملا ہے، کیرل اسمبلی سمیت کسی بھی اسمبلی کو یہ حق نہیں ہے۔
اس کے بعد، بی جے پی رکن پارلیامان جی وی ایل نرسمہا راؤنے راجیہ سبھا کے اسپیکر ایم وینکیا نائیڈو کے پاس ایک عرضی لگاکر ان سے گزارش کی کہ کیرل اسمبلی میں سی اے اے کے خلاف تجویز منظور کرنے پر وہ کیرل کے وزیراعلیٰ کےخلاف پارلیامنٹ کے خصوصی اختیارات کی کارروائی شروع کریں۔
راؤ نے اس مدعے پر راجیہ سبھا کےخصوصی اختیارات والی کمیٹی کے 3 جنوری کو ہونے والے اگلے اجلاس میں بحث کی مانگ کی۔
اس بیچ، پرساد نے کہا کہ قانون پورے ملک کے لئے لازمی ہےاور پوری طرح سے قانونی اور آئینی ہے۔ انہوں نے کہا، سی اے اے کسی ہندوستانی مسلمان سے متعلق نہیں ہے، اور کسی ہندوستانی شہری سے بہت کم۔ یہ صرف پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش میں ستائے گئے چھ کمیونٹی کے لوگوں سے متعلق ہے، جن کو ان کے عقیدہ کی وجہ سے باہر کیا جا رہا ہے۔
اس سے پہلے کیرل اسمبلی میں تجویز پیش کرتے ہوئے وجین نےکہا تھا کہ ملک کے سیکولرازم، اس کے مذہبی اور لسانی تنوع پر غور کئے بغیر کسی بھی قانون کے دوررس نتائج ہوںگے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کچھ مذہبی علاقوں پر پابندی لگائی جاتی ہے یا کچھ دیگر طبقوں کو شہریت کے لئے بہتر تصور دیے جاتے ہیں تو ملک کی سیکولر فطرت ختم ہوجائے گی۔
انہوں نے کہا،’اگر تکثیریت میں وحدت ہے توجو قدر ہم نےبرقرار رکھی ہے ، وہ ضائع ہوچکی ہے، ایسی صورتحال سے ملک کا زوال ہوگا… ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ملک کی بقا کے لئے آئین کے ذریعے نافذ کئے جا رہے اقدارضروری ہیں۔’
انہوں نے کہا، ‘ہمیں یہ محسوس کرنا چاہیے کہ شہریت ترمیم قانون سمیت کئی معاملے ملک میں ایک بڑے ایجنڈے کا حصہ ہیں۔ یہ واضح ہے کہ جب ہم اس قانون (اسمبلیوں) کی تفتیش کرتے ہیں تو اس حکومت نے نافذ کیا ہے… مسلم کمیونٹی کے خلاف قدم…ایک قانون لایا گیا تھا جس نے ٹرپل طلاق کو ایک مجرمانہ جرم بنادیا تھا…جب 13 ہندوستانی ریاستوں میں خصوصی قانون، آرٹیکل 370 تھا، جس نے خصوصی درجہ دیا تھا جموں اور کشمیر کو ہٹا لیا گیا۔ مسلم اکثریتی ریاست کے لئے ایسانقطہ نظر اپنایا گیا تھا۔ ‘
سی اے اے کے تحت ریاستوں کو درکنار کرنے کے لئے کارروائی کو آن لائن کرنے پر کر رہا ہےغور مرکز
شہریت قانون کے تحت شہریت عطا کرنے کی مکمل کارروائی مرکز کے ذریعے آن لائن بنانے کا امکان ہے، تاکہ ریاستوں کو اس قواعد میں درکنار کیا جا سکے۔ افسروں نے منگل کو یہ جانکاری دی۔ دراصل، کچھ ریاست اس نئےقانون کےخلاف ہیں۔
مرکزی وزارت داخلہ کیرل سمیت کئی ریاستوں میں سی اے اےکی زوردار مخالفت کئے جانے کے مدنظر کلکٹر کے ذریعے شہریت کے لئے درخواست لینے کے موجودہ عمل کو چھوڑنے کے اختیار پر غور کر رہا ہے۔ کیرل میں منگل کو اسمبلی میں ایک تجویز منظور کر کے اس متنازعہ قانون کو واپس لینے کی مانگ کی گئی۔
وزارت داخلہ کے ایک افسر نے کہا، ‘ہم کلکٹر کے بجائےایک نئی اتھارٹی کو نامزد کرنے اور درخواست، دستاویزوں کی چھان بین اور شہریت عطاکرنے کے عمل کو آن لائن بنانے کی سوچ رہے ہیں۔ ‘افسر نے کہا کہ اگر یہ عمل پوری طرح سے آن لائن بن جاتا ہے تو کسی بھی سطح پر کوئی ریاستی حکومت کسی طرح کی مداخلت نہیں کرےگی۔
اس کے علاوہ وزارت داخلہ کے افسروں کی یہ رائے ہے کہ ریاستی حکومتوں کے پاس سی اے اے کی عمل آوری کو خارج کرنے کی کوئی طاقت نہیں ہےکیونکہ یہ قانون آئین کی ساتویں فہرست کی یونین فہرست کے تحت بنایا گیا ہے۔
وزارت کے اعلیٰ افسر نے کہا، ‘ریاستوں کو وفاقی فہرست میں شامل کسی قانون کے نفاذ سے انکار کرنے کا اختیار نہیں ہے۔’یونین فہرست میں97 موضوع ہیں، جن میں دفاع ، امور خارجہ ، ریلوے ، شہریت وغیرہ شامل ہیں۔
کیرل کے ساتھ مغربی بنگال، پنجاب، مدھیہ پردیش اورچھتیس گڑھ سمیت کچھ دیگر ریاستوں کے وزیراعلیٰ نے اس قانون کے ‘ غیر آئینی’ہونےکا اعلان کیاہے اور کہا کہ اس کے لئے ان کی ریاستوں میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی نے کہا تھا، ‘آپ کے(بی جے پی کے)منشور میں ترقی کے مدعوں کے بجائے، آپ نے ملک کو تقسیم کرنے کا وعدہ کیا۔ شہریت مذہب کی بنیاد پر کیوں دی جائے؟ میں اس کو منظور نہیں کروںگی۔ ہم آپ کو چیلنج کرتے ہیں…’
انہوں نے کہا، ‘آپ لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں جبراًقانون منظور کر سکتے ہیں کیونکہ آپ کے پاس وہاں تعداد کی طاقت ہے۔ لیکن ہم آپ کوملک بانٹنے نہیں دیںگے۔ ‘
پنجاب کے وزیراعلیٰ امریندر سنگھ نے اس قانون کو ہندوستان کی سیکولر امیج پر سیدھا حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت اپنی ریاست میں اس قانون کو نافذ نہیں ہونے دےگی۔
چھتیس گڑھ کے وزیراعلیٰ بھوپیش بگھیل نے کہا کہ یہ قانون پوری طرح سے غیر آئینی ہے۔ انہوں نے کہا، ‘اس پر کانگریس پارٹی میں جو کچھ فیصلہ ہوگا ہم چھتیس گڑھ میں اس کو نافذ کریںگے۔’
مدھیہ پردیش کے وزیراعلیٰ کملناتھ نے کہا تھا، ‘کانگریس پارٹی نے شہریت ترمیم قانون پر جو کچھ رخ اختیار کیا ہے ہم اس پر عمل کریںگے۔کیا آپ اس عمل کا حصہ بننا چاہیںگے جو تقسیم کا بیج بوتا ہے۔ ‘
کانگریس کے سینئر رہنما پی چدمبرم نے بھی کہا کہ یہ ایکٹ آئین میں درج بنیادی اصولوں پر کھلم کھلا حملہ ہے اور اس قانون کی قسمت کے بارے میں فیصلہ عدالت عظمیٰ میں ہوگا۔
غورطلب ہے کہ سی اے اے پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے 31 دسمبر 2014 تک آئے ہندو،سکھ، عیسائی، بودھ، جین اور پارسی کمیونٹی کے لوگوں کو ہندوستانی شہریت دینے کااہتمام کرتا ہے، جنہوں نے ان تین پڑوسی ممالک میں مذہبی استحصال کا سامنا کیا ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں