جی ایس ٹی چوری کے مبینہ کیس میں گرفتار سینئر صحافی مہیش لانگا کے خلاف گجرات میری ٹائم بورڈ کے خفیہ دستاویز رکھنے کے الزام میں بھی ایک مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اس پر میڈیا اداروں کا کہنا ہے کہ صحافیوں کو کام کے دوران حساس دستاویز کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے لیے تعزیری کارروائی شروع کرنا تشویشناک ہے۔
پریس کونسل آف انڈیا کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کووڈ 19 کے دوران میڈیا اداروں کی جانب سے صحافیوں کو ہٹانے کے سلسلے میں اس کی تشکیل کردہ کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے 80 فیصد صحافیوں نے کہا کہ ان پر استعفیٰ یا وی آر ایس کا دباؤ تھا۔
گزشتہ چار جولائی کو یوپی کے شاملی میں ایک کباڑ خریدنے والے فیروز کی مبینہ مارپیٹ کے بعد موت ہو گئی تھی، جسے کچھ صحافیوں نے لنچنگ بتایا تھا۔ پولیس نے اس معاملے میں غیر ارادتاً قتل کا مقدمہ درج کرنے کے ساتھ ہی دو صحافیوں سمیت پانچ افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔
فنانشل ٹائمز کے دو صحافیوں کو گجرات پولیس نے اڈانی گروپ کی کمپنیوں کے سلسلے میں اخبار میں شائع ہونے والےایک مضمون سے متعلق ابتدائی تفتیش کے لیے طلب کیا تھا۔ اس سے قبل عدالت نے دو دیگر صحافیوں کو اڈانی —ہنڈنبرگ تنازعہ پر ان کی رپورٹ کے حوالے سے عبوری تحفظ فراہم کیا تھا۔
گزشتہ 3 اکتوبر کو دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے یو اے پی اے کے تحت درج ایک کیس کے سلسلے میں نیوز ویب سائٹ نیوز کلک اور اس کے عملے کے یہاں چھاپے ماری کی تھی۔ اس دوران 90 سے زائد صحافیوں کے تقریباً 250 الکٹرانک آلات ضبط کیے گئے تھے۔ تقریباً ایک ماہ بعد بھی انہیں واپس نہیں کرنے سے صحافیوں کے لیے کام کرنا دشوار ہو گیا ہے۔
موبائل فون بنانے والی کمپنی ایپل نے حزب اختلاف کے کئی رہنماؤں اور انڈیا اتحاد میں شامل کچھ صحافیوں کو ایک ای میل بھیج کر وارننگ دی ہے کہ ان کے آئی فون کے ساتھ اسٹیٹ اسپانسرڈ حملہ آور چھیڑ چھاڑ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اپوزیشن لیڈروں کا کہنا ہے کہ یہ ایمرجنسی سے بھی بدتر صورتحال ہے۔
ویڈیو: مہوا موئترا، پرینکا چترویدی، راگھو چڈھا، ششی تھرور اور اکھلیش یادو جیسے اپوزیشن جماعتوں کے کئی سرکردہ رہنماؤں اور کم از کم تین صحافیوں کو موبائل فون بنانے والی کمپنی ایپل کی طرف سے ایک پیغام موصول ہوا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ان کے آئی فون کو اسٹیٹ اسپانسرڈحملہ آوروں کے ذریعے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
موبائل فون بنانے والی کمپنی ایپل نے حزب اختلاف کے کئی رہنماؤں اور کچھ صحافیوں کو ایک ای میل بھیج کر وارننگ دی ہے کہ ان کے آئی فون سے اسٹیٹ اسپانسرڈ حملہ آور چھیڑ چھاڑ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کمپنی نے اس کو سنجیدگی سے لینے کی بات کہی ہے۔ وہیں اپوزیشن رہنماؤں نے کہا کہ سرکار کا ڈر دیکھ کر اس پر ترس آتا ہے۔
ایڈیشنل سیشن جج پون سنگھ راجاوت نے نچلی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے یہ تبصرہ کیا، نچلی عدالت نے دہلی پولیس کو دی وائر کے عملے سے ضبط کیے گئے الکٹرانک آلات واپس کرنے کو کہا تھا۔ پولیس نے اکتوبر 2022 میں بی جے پی کے ایک رہنما کی جانب سے دی وائر کے خلاف شکایت کے بعد ان آلات کو ضبط کیا تھا۔
ویڈیو: یو اے پی اے کے تحت درج ایک معاملے میں پوچھ گچھ کے بعد دہلی پولیس نے نیوز ویب سائٹ نیوز کلک کے مدیر پربیر پرکایستھ اور ایچ آر ہیڈ امت چکرورتی کو 3 اکتوبر کو گرفتار کیا ہے۔ اس معاملے پر سوراج انڈیا پارٹی کے لیڈر یوگیندر یادو سے بات چیت۔
اکتوبر کے شروعاتی چند دنوں میں ہی ملک کی مختلف ریاستوں میں مرکزی ایجنسیوں کے منظم ‘چھاپے’، ‘قانونی کارروائیاں’، نئے درج کیے گئے مقدمات اور ان آوازوں پر قدغن لگانے کی کوششوں کا مشاہدہ کیا گیا، جو اس حکومت سے اختلاف رکھتے ہیں یا اس کی تنقید کرتے ہیں۔
حکومت کے جس قدم سے ملک کا نقصان ہو، اس کی تنقید ہی ملک کا مفاد ہے۔ ‘نیوز کلک’ کی تمام رپورٹنگ سرکاری دعووں کی پڑتال کرتی ہے، لیکن یہی تو صحافت ہے۔ اگرسرکار کے حق میں لکھتے اور بولتے رہیں تو یہ اس کا پروپیگنڈہ ہے۔ اس میں صحافت کہاں ہے؟
نیوز کلک کے بانی اور مدیر پربیر پرکایستھ اور پورٹل کے ایچ آرہیڈ امت چکرورتی کو منگل کو یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیا گیا تھا، لیکن پولیس نے ان کے وکیلوں کو ایف آئی آر کی کاپی دینے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد انہوں نے عدالت سے رجوع کیا ہے۔
معروف قلمکار اور کارکن ارندھتی رائے نے نیوز کلک سے وابستہ صحافیوں کے یہاں چھاپے ماری کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ اگر 2024 میں بھارتیہ جنتا پارٹی دوبارہ اقتدار میں آتی ہے تو ملک میں جمہوریت کا نام ونشان نہیں رہے گا۔
نیوز کلک نے اپنے صحافیوں اور عملے کے یہاں چھاپوں، پوچھ گچھ اور گرفتاریوں کے بعد جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ ایسی حکومت، جو پریس کی آزادی کا احترام نہیں کرتی اور تنقید کو غداری یا ‘اینٹی نیشنل’ یا پروپیگنڈہ سمجھتی ہے، اس کی اس کارروائی کی شدید مذمت کرتے ہیں۔
یو اے پی اے کے تحت درج ایک معاملے میں پوچھ گچھ کے بعد دہلی پولیس نے گزشتہ منگل کو نیوز ویب سائٹ نیوز کلک کے ایڈیٹر پربیر پرکایستھ اور ایڈمنسٹریٹر امت چکرورتی کو گرفتار کر لیا ہے۔ یہ معاملہ نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ پر مبنی ہے، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس ویب سائٹ کو ‘ہندوستان مخالف’ ماحول بنانے کے لیے چین سے فنڈنگ کی گئی ہے۔
ایک پورے میڈیا آرگنائزیشن پر ‘چھاپے ماری’ اور صحافیوں کے الکٹرانک آلات کو لازمی ضابطہ پرعمل کیے بغیرچھین لینا آزاد پریس کے لیے نیک شگون نہیں ہے، اور جمہوریت کے لیے اس سے بھی بدتر۔
نیوز کلک سے وابستہ صحافیوں، کارکنوں وغیرہ کے گھروں پر چھاپے ماری، ان کے موبائل، لیپ ٹاپ وغیرہ ضبط کرنے اوران سے پوچھ گچھ کرنے کی کارروائی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے میڈیا تنظیموں، کارکنوں اور اپوزیشن نے اسے میڈیا کو ڈرانے کی کوشش قرار دیا ہے۔
صحافیوں، کارکنوں اور اسٹینڈ اپ کامیڈین کے خلاف یہ چھاپے ماری سخت یو اے پی اے کے تحت گزشتہ اگست میں درج کی گئی ایف آئی آر سےمتعلق ہے۔ پولیس نے نیوز ویب سائٹ نیوزکلک کے ملازمین کے گھروں پر چھاپے مار کر ان کے موبائل اور لیپ ٹاپ جیسے الکٹرانک آلات ضبط کر لیے ہیں۔
اسی کی دہائی کے بعد پہلی بار ہندوستان میں کوئی چینی رپورٹر نہیں ہے۔ ژنہوا نیوز ایجنسی اور چائنا سینٹرل ٹیلی ویژن کے آخری دو صحافیوں کو ملک چھوڑنے کے لیے کہا گیا ہے۔ چین نے کہا ہے کہ اس کے پاس اپنی میڈیا تنظیموں کے حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے مناسب جوابی اقدامات کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔
ویڈیو: کیا نریندر مودی کے امرت کال میں لوگوں کا اپنی بات کہنا ‘زہر’ کی طرح ہے؟ راہل گاندھی لوک سبھا میں کچھ بول نہیں سکتے، جو لندن میں بول آئے ہیں، اس کے لیے بھی معافی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ دریں اثنایوپی میں ایک صحافی کو وزیر سے سوال پوچھنے پر گرفتار کر لیا گیا۔ ان موضوعات پر پروفیسر اپوروانند اور سدھارتھ وردراجن کی بات چیت۔
انٹرنیشنل سینٹر فار جرنلسٹس آف امریکہ کی جانب سے شائع کی گئی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان سمیت کئی ممالک میں کیے گئے سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 75 فیصد خواتین صحافیوں نے اعتراف کیا ہے کہ انہیں آن لائن پرتشدد حملوں کا سامنا ہے۔ کئی خواتین نے یہ بھی بتایا کہ آن لائن ٹرولنگ کا نتیجہ جسمانی حملوں کی صورت میں بھی نکلا ہے۔
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) کی جانب سے جاری ایک رپورٹ کے مطابق، یکم دسمبر 2022 تک دنیا بھر کے 363 رپورٹرز/صحافیوں کو ان کے پیشے کی وجہ سے مختلف ممالک کی حکومتوں نے جیلوں میں ڈالا ہے۔ ان میں ہندوستان کے سات صحافی بھی شامل ہیں، جن میں سے تین ایک سال سے زیادہ سے جیل میں ہیں۔
کشمیر کے اخبار گریٹر کشمیر کے ساتھ طویل عرصے تک وابستہ رہے خالد گل ان صحافیوں میں سے ایک تھے جن کے گھروں پر گزشتہ ماہ پولیس نے دوسرے صحافیوں کو ملنے والی آن لائن دھمکیوں کے سلسلے میں چھاپے مارے تھے۔
حال ہی میں لشکر طیبہ کے مبینہ بلاگ پر شائع ہونے والے ایک دھمکی آمیز خط میں وادی کے 21 میڈیا تنظیموں کے مالکان، مدیران اور صحافیوں کے نام لیے گئے تھے۔ بتایا گیا کہ چھاپے کے دوران مقامی صحافی سجاد احمد کرالیاری کو حراست میں لیا گیا اور ان کا لیپ ٹاپ، کیمرہ اور موبائل فون ضبط کر لیا گیا۔
لشکر طیبہ کے مبینہ بلاگ پر شائع ہونے والا ایک دھمکی آمیز خط، جس کے اسکرین شاٹ سوشل میڈیا پر شیئر کیے گئے ہیں،اورجس میں 21 مالکان، مدیران اور صحافیوں کا نام لیا گیا ہے، ان میں سے زیادہ تر سری نگر کے تین میڈیا ہاؤس سے وابستہ ہیں۔
ویڈیو: ملک میں صحافیوں اور سماجی کارکنوں کی گرفتاریوں اور ان معاملوں پر عدالتوں کے رویے پر سپریم کورٹ کے وکیل اور راجیہ سبھا ایم پی کپل سبل سے دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی کی بات چیت۔
ہر دو تین ماہ بعد سیکورٹی ایجنسیاں کشمیر میں کسی نہ کسی صحافی کےدروازے پر دستک دینے پہنچ جاتی ہیں،اور یہ منظر خود بخود دوسروں کےذہنوں میں خوف پیدا کر دیتا ہےکہ اگلی باری ان کی ہو سکتی ہے۔
انٹرویو: حال ہی میں نوبل امن انعام یافتہ اور فلپائن سے تعلق رکھنے والی صحافی ماریا ریسا کی ویب سائٹ ریپلر کو وہاں کی حکومت نے بند کرنے کا فیصلہ صادر کیا ہے۔ دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی کے ساتھ بات چیت میں ماریہ نے کہا کہ صحافیوں کو لوگوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ اگر وہ آج اپنے حقوق کے لیے نہیں لڑیں گے تو وہ انھیں ہمیشہ کے لیے کھو دیں گے۔
بدھ کو بلیا ضلع انتظامیہ نے 24 اضلاع میں اسی دن ہونے والے 12ویں جماعت کے انگریزی کے بورڈ امتحان کے پیپر لیک ہونے کی اطلاع ملنے کے بعد امتحان کو ردکر دیا تھا۔ اس معاملے میں ڈسٹرکٹ اسکول انسپکٹر سمیت 22 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ان میں تین صحافی بھی شامل ہیں، جنہوں نے پیپر لیک ہونے کی خبر لکھی تھی۔
پچھلے کئی برسوں سے نہ صرف کشمیر بلکہ ملک کے دیگر خطوں میں پریس اور شہری حقوق کے ادارےمسلسل نگرانی میں ہیں۔ کشمیر کے صحافیوں پر تو کچھ زیادہ ہی مہربانی ہے۔ ان کے گھروں پر چھاپے، پولیس کی طرف سے طلبی اور پوچھ گچھ، صحافیوں کے فون اور لیپ ٹاپ کو ضبط کرنا ان دنوں معمول بن گیا ہے۔
کشمیر میں حالیہ واقعات اور اس سے قبل بھی یہ بات تو ثابت ہوگئی ہے کہ وہاں کام کرنے والے صحافیوں کو تلوار کی دھار پر چلنا پڑتا ہے۔ مگر 2018کے بعد کشمیر پریس کلب کی صورت میں خطے کے صحافیوں کو ایک آواز ملی تھی۔ یہ شاید واحد صدا تھی، جو صحافیوں کے زندہ ہونے کا ثبوت پیش کر رہی تھی۔
انٹرنیشنل پریس انسٹی ٹیوٹ کےمطابق میکسیکو مسلسل دوسری بار پہلے نمبر پر ہے جہاں اس سال سات صحافی مارے گئے۔ اس کے بعدہندوستان اور افغانستان کا نمبر آتا ہے جہاں چھ-چھ صحافیوں کو مارا گیا۔
ممبئی پریس کلب کی طرف سے ڈیجیٹل میڈیم کے ذریعے منعقدہ ‘ریڈ انک ایوارڈز’تقریب میں چیف جسٹس این وی رمنا نے خبروں میں نظریاتی تعصب کی آمیزش کے رجحان کےبارے میں کہا کہ حقائق پر مبنی رپورٹس میں رائے دینے سے گریز کیا جانا چاہیے۔صحافی ججوں کی طرح ہوتے ہیں۔انہیں اپنے نظریے اور عقیدے سے اوپر اٹھ کر کسی سے متاثر ہوئے بغیر صرف حقائق بیان کرنا چاہیے اور ایک حقیقی تصویر پیش کرنی چاہیے۔
سال 2019 کے لیےگورننس اور پالیٹکس کےزمرے میں’ڈیجیٹل میڈیا’ اور ‘براڈکاسٹ میڈیا’ گروپ میں دی وائر ہندی کے رپورٹر دھیرج مشرا اور فری لانس صحافی سیمی پاشا کورام ناتھ گوئنکا جرنلزم ایوارڈ دیا گیا ہے۔ چار سال کے سفر میں دی وائر ہندی کے رپورٹر کو ملا یہ دوسرا رام ناتھ گوئنکا ایوارڈ ہے۔
اے آئی ایم آئی ایم کے صدر اسدالدین اویسی اتر پردیش میں اگلے سال ہونے وال اسمبلی انتخابات کےمدنظر بارہ بنکی میں منعقد ایک تقریب میں شریک ہوئے تھے۔ اویسی اور اس تقریب کے منتظمین کے خلاف ک کووڈ-19 گائیڈلائن کی خلاف ورزی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثرنے کے الزام میں معاملہ درج کرنے کے کچھ ہی گھنٹوں بعد قومی پرچم کی توہین کو لےکر ایک اور معاملہ درج کیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ نے دی وائر کو چلانے والےادارے‘فاؤنڈیشن فار انڈیپنڈنٹ جرنلزم ’اور اس کےتین صحافیوں کے خلاف اتر پردیش میں درج ایف آئی آر کو رد کرانے کے لیے الہ آباد ہائی کورٹ کے پاس جانے کے لیے کہا اور انہیں گرفتاری سے دو مہینے کاتحفظ فراہم کیا ۔
نیوز ویب سائٹ نیوزلانڈری کی رپورٹر ندھی سریش کے خلاف یہ ایف آئی آر نیوز18کے صحافی دیپ شریواستو کی شکایت پر درج کی گئی ہے۔ندھی کی ایک رپورٹ میں یوپی کی ایک خاتون نے الزام لگایا تھا کہ ان کے مذہب تبدیل کرنے کے سلسلےمیں خبر بنانے کو لےکر دیپ نے انہیں دھمکایا اور پیسے لیے۔
اتر پردیش پولیس نے بارہ بنکی میں غیر قانونی طور پر ایک مسجد کو منہدم کرنے کی رپورٹ کو لےکرجمعرات کی شب دی وائر اور اس کے دو صحافیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔مسجد کو مبینہ طور پر مقامی انتظامیہ کے ذریعے گزشتہ مئی میں منہدم کیا گیا تھا، جس کی خبر ہندوستان اور بیرون ملک میں دی وائر سمیت کئی دیگر میڈیا اداروں نے شائع کی تھی۔
صحافی آشیش ساگر پچھلے کچھ دنوں سے اتر پردیش کے باندہ ضلع میں کین ندی میں غیر قانونی ریت کان کنی کی رپورٹنگ کر رہے ہیں۔الزام ہے کہ ضلع کے پیلانی حلقہ کی املور مورم کان سے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ریت نکالی جا رہی ہے، جس کی وجہ سے ندی اور ماحولیات کو شدید نقصان ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں ضلع انتظامیہ سے شکایت کی گئی ہے۔ وہیں علاقے کے ایس ڈی ایم کا کہنا ہے کہ غیرقانونی کان کنی نہیں ہو رہی ہے۔